Thursday, June 20, 2019

’میری بیوی کام نہیں کرتیں، وہ ہاؤس وائف ہیں‘

اپ کی بیوی کیا کرتی ہیں؟ ’جی میری بیوی ‘ہاؤس وائف‘ ہیں،گھر پر رہتی ہیں، کوئی کام نہیں کرتیں۔‘ یہ جملہ اکثر اوقات، مرد حضرات  سے سننے میں آتا ہے۔ دراصل اس جملے کی حقیق بہت ہی تلخ ہے۔
(اے ایف پی)

 ’ہاؤس وائف‘ درحقیقت ایک فل ٹائم جاب ہے جس کا اندازہ ہم با آسانی سے لگا سکتے ہیں۔ بس ہمیں صرف اپنے گھروں کے اندر ایک سنجیدہ اور مخلص  نظر ڈالنی ہوگی۔ آپ کو اپنے گھر میں ہاؤس جاب جیسی کل وقتی ملازمت کرنے والی بیوی، ماں، بہن، بیٹی یا بہو نظر آئیں گی۔ کھانا پکانے، صفائی ستھرائی سے لے کر بیماروں کی تیمارداری اور خاندان میں غمی خوشی کے تمام رسم و رواج نبھاتی ہوئی نظر آئیں گی۔ یہاں اس بات کو مدنظر رکھیں کہ دیہات کی ’ہاؤس وائف‘ کی ذمہ داریوں میں مال مویشیوں کی دیکھ بھال، کھیتوں کے کام میں مدد کے علاوہ ایندھن اور پانی کا بندوبست بھی شامل ہوتا ہے۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اگر آپ ان خواتین سے بھی پوچھ لیں کہ آپ کیا کرتی ہیں تو وہ بھی یہی جواب دیں گی۔ اس کی وجہ یہ پورا مائنڈ سیٹ ہے جو عرصہ دراز سے ہمارے اردگرد پایا جاتا ہے۔ اگر آپ گھر سے باہر جا کر نوکری کرتیں ہیں اور آپ کو تنخواہ ملتی ہے تو یہ ایک باقاعدہ کام (جاب) ہے جس کی گھر میں بھی بہت عزت ہے اور گھر سے باہر تو سارا لین دین ہی آپ کے معاشی حیثیت کی مرہون منت ہے۔ لیکن دوسری طرف ’ہاؤس وائف‘ کی جاب میں تنخواہ اور عزت نہیں ملتی۔ اس جاب کی جاب ڈسکرپشن تحریری طور پر نہیں ہوتی لیکن ہر عورت کو اس جاب کے سارے کردار اور ذمہ داریاں بخوبی یاد ہوتی ہیں۔ ان ذمہ داریوں کویہ ’ہاؤس وائف‘ پورے تن، من اور دھن سے پورا کرتی ہیں۔ گھر میں ان ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے سرانجام دینے والی خواتین کو وہ عزت اور رتبہ تک نہیں ملتا جو ایک بامعاوضہ ملازمت کرنے والے فرد کو ملتا ہے۔ اگر انہی گھریلوں کاموں کے لیے آپ کو باہر سے کسی مددگار کو بھرتی کرنا پڑے تو اسے نہ صرف منہ مانگی اجرت ملتی ہے بلکہ اس کے اضافی ناز نخرے بھی اٹھانے پڑتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں ایک خاتون کی شادی کا مطلب ایک مرد سے نہیں بلکہ ایک پورے خاندان سے شادی ہونا سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں شادی کے بعد ہر بیوی کا فرض ہے کہ وہ خلوص اور محبت سے اپنے فرائض کی ادائیگی کرے۔ اس میں کوتاہی اچھی بات تصور نہیں کی جاتی لہذا اس کی مار پیٹ ایک جائز حق سمجھا جاتا ہے۔ مسئلہ ’ہاؤس وائف‘ میں نہیں مسئلہ اس سوچ کا ہے کہ ایک ’ہاؤس وائف‘ جو 24 میں 16 سے 18 گھنٹے کام کرتی ہے، وہاں کوئی یہ کیسے کہہ سکتا  ہے کہ میری بیوی  کچھ نہیں کرتی۔ اگر اس ’ہاؤس وائف‘ کے کام کی اجرت کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ کم از کم چالیس سے پچاس ہزار روپے ماہوار سے کم میں ہرگز پورا نہیں ہوگا۔

اس ملک کی آدھی آبادی جو خواتین پر مشتمل ہے اس کے بہت سارے مسائل ہیں۔ ان میں ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم نے انفرادی اور اجتماعی طور پر آج تک ان کے کردار اور ذمہ داریوں کو سراہا ہی نہیں ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے کیونکہ یہ رویہ گھر سے شروع ہوتا ہوا پورے معاشرے میں پھیلا ہوا ہے۔ اس معاشرے میں ’ہاؤس وائف‘ کی جہاں عزت اور اعتراف نہیں پایا جاتا وہاں کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین اور دوسروں  کے گھروں میں ملازمت کرنے والی خواتین  کے کام آج تک بلامعاوضہ مزدورں کے کیٹیگری میں شمار ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ بامعاوضہ کام کرنے والوں کے اعدادوشمار میں شامل  ہی نہیں۔ جو کہ سراسر زیادتی ہے۔ اس کا نقصان ان خواتین کو اس صورت میں اٹھانا پڑتا ہے کہ ان کی ضروریات کے مطابق پالیسیاں بنتی ہی نہیں ہیں۔

 اسی لیے بھارت سے تعلق رکھنے والی مشہور و معروف سماجی کارکن کملہ باسین کا جوکہ خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم عمل رہتی ہیں کہنا ہے کہ تاریح کا سب سے بڑا جھوٹ تو تب سامنے آئے گا جب بلامعاوضہ مزدورں کا کام ریکارڈ پر لایا جائے گا، جس میں سے اکثریت خواتین کی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق 85 فیصد گھریلو کام اور دیکھ بھال خواتین اور بچیاں کرتیں ہیں۔ اکثر خواتین اپنی تعلیم، روزگار اور کیرئر میں اس لیے آگے بڑھ نہیں پاتیں ہیں کہ وہ ان گھریلو ذمہ داریوں کو ترجیح دیتی ہیں۔  

آج وقت آگیا ہے کہ ہم سب اپنی سوچ بدلیں اور اس سوال کا جواب  بھی بدلیں اور جواب میں کہیں کہ جی میری بیوی ’ہاؤس وائف‘ ہے اور روزانہ 16 سے 18 گھنٹے کام کرتی ہے۔ جب گھر گھر عورت کی عزت اور احترام ہوگا وہاں کا ہر فرد عورت کا نہ صرف احترام سیکھے گا بلکہ ان کی زندگیوں میں عورت کی موجودگی کی اہمیت کے معترف بھی ہوں گے۔ اور یہی رویہ آگے چل کر بہت جلد پورے معاشرے کی سوچ بدل دے گا۔ ان کھیتوں اور دوسروں کے گھروں میں ملازمت کرنے والی خواتین کو بہت جلد بامعاوضہ مزدور تصور کرکے ان کے لیے ایسی پالیسیاں بنائی جائیں گی جو ان کے کام میں آسانیاں پیدا کریں گی۔ 

Saturday, June 1, 2019

جنسی زیادتی عورتوں کا نہیں بلکہ مردوں کا مسئلہ

ایک اور معصوم فرشتہ آدم خور انسان کی جنسی زیادتی کا شکار ہو گئی۔ کیا اب بھی آپ چپ رہیں گے؟

ریپ کے محرکات میں جنسی ہیجان سے زیادہ طاقت، کنٹرول، برتری اورانتقام جیسے جذبوں کادخل ہوتاہے
(پکسر بے)

اسلام آباد کی فرشتہ جیسے معصوم بچے بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہر لحاظ سے دل دہلا دینے والے واقعہ تھا لیکن ستم بالائے ستم یہ کہ جنسی زیادتی کے مرتکب مجرموں کی سرزنش کی بجائے اب بھی لوگوں کا اصرار ہے کہ خواتین کو گھر سے نکلنا کم کرنا چاہیے اور لباس کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ کہ لوگوں کو آج بھی لگتا ہے کہ خواتین کے لباس اور گھر سے باہر نکلنے کی وجہ سے ان کے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی ہے۔

مجھے نہیں معلوم کہ زینب، فرشتہ اور ان جیسے بےشمار معصوم بچوں کے لباس میں ایسا کیا تھا جس نے ایک آدمی میں جذباتی ہیجان پیدا کیا، جس نے ان معصوم کلیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی اور بعد میں بے دردی سے قتل کرنے کا جواز بھی دیا۔

خدارا اب تو یہ منافقت چھوڑ دیں اور برملا غلط کو غلط کہیں۔ جب تک بحیثیت مجموعی ہمارا معاشرہ جنسی زیادتی کے محرکات کو نہیں سمجھے گا، اس کے تدارک کے لیے اقدامات دور رس ثابت نہیں ہو سکتے۔
جنسی زیادتی کے محرکات میں جنسی ہیجان سے زیادہ طاقت، کنٹرول، برتری اور انتقام جیسے جذبوں کا دخل ہوتا ہے۔ اس حوالے سے بیشتر قومی اور بین الاقوامی اداروں کی تحقیقی رپورٹیں اور مراسلات اس وقت انٹرنیٹ پر عوام کی آگہی کے لیے موجود ہیں لیکن بحیثیت مجموعی ہمارے ہاں پڑھنے کا زیادہ رواج نہیں۔

فرشتہ اور زینب کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد اکثر حلقوں میں بحث چلی ہے جن میں سے کچھ میں شاید آپ نے بھی حصہ لیا ہو گا۔ بہت سارے سوال اٹھائے ہوں گے اور اپنا موقف بھی دیا ہو گا۔ اس تحریر کے ذریعے میں بھی آپ کے ساتھ ایک بحث شروع کرنا چاہتی ہوں۔ 

ہم میں سے کتنے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جنسی زیادتی ایک برا عمل ہے اور کتنے یہ سمجھتے ہیں کہ جنسی زیادتی کرنے والا انسان برا اور خوفناک ہوتا ہے؟

کیا یہ افسوس ناک نہیں کہ آج بھی ہم میں سے اکثر جنسی زیادتی کو تو برا فعل سمجھتے ہیں لیکن ایسا کرنے والے کو برا اور خوفناک نہیں سمجھتے اور نہ ہی ان کے بارے میں زیادہ بات کرتے ہیں۔

بلکہ اس کے برعکس یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اکثر اوقات زیادتی کا شکار ہونے والے انسان کے بارے میں ہی زیادہ بحث ہوتی ہے۔

آج کل سوشل میڈیا کی وجہ سے حد ہی تمام ہو گئی ہے۔ بلا اجازت اور بلا تردد لوگ جنسی زیادتی کے متاثرین کی تصاویر، اس سے اور اس کے خاندان سے متعلق، حتیٰ کہ اس کی زندگی کے ہر پہلو کو سوشل میڈیا کی زینت بنا دیتے ہیں۔

لیکن جو درندہ اس جرم کا ذمہ دار ہوتا ہے اس کے بارے میں سرے سے بات ہی نہیں ہوتی، بلکہ اس کو تھانے اور عدالت لاتے لے جاتے ہوئے اس کا چہرہ کپڑے سے ڈھک دیا جاتا ہے۔ کیا یہ سراسر زیادتی نہیں؟

اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ جنسی زیادتی کرنے والا ہمارے معاشرے کا گمراہ انسان ہوتا ہے لیکن اگر آپ ایسے واقعات کا جائزہ لیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اس میں ملوث لوگ اکثر اوقات پڑھے لکھے، سمجھ دار حتیٰ کہ مذہبی رجحان رکھنے والے ہوتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنسی زیادتی کرنے والے ہمارے اس پاس ہر وقت موجود اور اسی معا شرے کا حصہ ہیں۔

جنسی زیادتی کرنے والوں کی ڈھٹائی دیکھیں کہ اسی معاشرے میں آپ کے، میرے اور ہم سب کے ساتھ رہتے ہوئے بھی وہ خود کو اس معاشرے کا جواب دہ نہیں سمجھتے اور اس معاشرے میں رہنے والے ہر انسان کی کھل کھلا کر تذلیل کرتے ہیں۔

یہاں پر معاشرے کا کیا کردار بنتا ہے؟ کیا ایسے معاشرے میں ایسے لوگوں کے لیے کوئی جگہ ہونی چاہیے یا ان کی نشاندہی کر کے ان کے ساتھ وہ رویہ اور عمل اپنانا چاہیے جس کے وہ حقدار ہیں؟ 

جب ہم رویے کی بات کرتے ہیں تو میرا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ جنسی زیادتی کے مرتکب ہونے والوں سے نفرت اور کنارہ کشی اس مسئلے کا حل ہے، بلکہ میں یقین سے کہتی ہوں کہ جب تک ہم جنسی زیادتی کے محرکات اور وجوہات کو اس کی گہرائیوں سے نہیں سمجھیں گے، تب تک ہم اس کے خاتمے کے لیے دور رس اقدامات نہیں کر سکتے۔

بصورت دیگر ہمارا معاشرہ درجہ بہ درجہ جنسی زیادتی کرنے والے درندے ہی پروان چڑھائے گا۔ 

جنسی زیادتی کا واقعہ ملک کے کسی بھی حصے میں ہو، اس کے اثرات ہم سب پر مرتب ہوتے ہیں۔اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے اردگرد رہنے والے کبھی اس ظلم کا شکار نہیں ہو سکتے تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔

یہ مسئلہ صرف آپ کے سوچنے سے نہیں ٹل سکتا۔ آپ کو اس کے لیے عملی طور پر سرگرم ہونا پڑے گا اور اس کے حل کے لیے اپنا کردار نبھانا ہو گا۔ 

ہمارے ملک میں جنسی زیادتی کے خاتمے کے لیے قوانین موجود ہیں اور اب اکثر و بیشتر ادارے عملی سطح پر اقدامات بھی کر رہے ہیں لیکن ان سب کے باوجود اکثر لوگ اپنے ساتھ جنسی زیادتی پر کھل کر بات نہیں کرنا چاہتے کیونکہ کہ وہ جانتے ہیں کہ معاشرہ حمایت کے بجائے الٹا ان کا تماشا بنائے گا۔ 

 جنسی زیادتی کے واقعات میں آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ جنس یا عمر کی بنیاد پر کوئی خاص تفریق موجود نہیں بلکہ عمومی طور پر ہر جنس اور عمر کے لوگ اس ظلم کا شکار ہوتے آ رہے ہیں۔

تاہم اگر دوسری طرف آپ جنسی زیادتی کرنے والوں پر نظر ڈالیں تو آپ کو اکثر یت مردوں کی نظر آئے گی۔ کیا اس سے صاف پتہ نہیں چلتا کہ یہ مردوں کا مسئلہ ہے اور اس کے حل کے لیے انہی کو ہی کچھ کرنا ہو گا۔

ہم نے ہمیشہ اپنے ارد گرد ایک بالکل متضاد رویہ پایا ہے۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ جنسی زیادتی خواتین کا مسئلہ ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ جنسی زیادتی کے خاتمے کے حوالے سے ہمیشہ خواتین بلکہ خصوصی طور پر انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی خواتین نے ہی زیادہ کام کیا۔

بجائے یہ کہ ان خواتین کی مزید پذیرائی اور حوصلہ افزائی ہو، جنسی زیادتی کو سراسر خواتین کا ہی مسئلہ بنایا جاتا ہے اور مرد خود کو مبرا سمجھتے ہیں۔ 

یہی رویہ اس سوچ کی بنیاد ہے کہ سارا مسئلہ عورت کے کھلے عام پھرنے اور لباس سے ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنسی زیادتی ہوتی رہے گی کیونکہ اس کے روک تھام کے لیے کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے اور اس کے حل کے لیے آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔

 جنسی زیادتی کے خاتمے کے لیے ہمیں بحیثیت مجموعی ردعمل (ری ایکٹیو) رویے سے زیادہ پیشگی حفاظتی (پرو ایکٹیو) رویہ اپنانا ہو گا، جس سے جنسی زیادتی کے جرائم کا خاطر خواہ خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔

How to Find Your Purpose in Life?

Unlocking the Secret to a Fulfilling Life: Mastering the Art of Discovering Your True Purpose! Credit: Getty Images/iStockphoto Life without...