اپ کی بیوی کیا کرتی ہیں؟ ’جی میری بیوی ‘ہاؤس وائف‘ ہیں،گھر پر رہتی ہیں، کوئی کام نہیں کرتیں۔‘ یہ جملہ اکثر اوقات، مرد حضرات سے سننے میں آتا ہے۔ دراصل اس جملے کی حقیق بہت ہی تلخ ہے۔
(اے ایف پی) |
’ہاؤس وائف‘ درحقیقت ایک فل ٹائم جاب ہے جس کا اندازہ ہم با آسانی سے لگا سکتے ہیں۔ بس ہمیں صرف اپنے گھروں کے اندر ایک سنجیدہ اور مخلص نظر ڈالنی ہوگی۔ آپ کو اپنے گھر میں ہاؤس جاب جیسی کل وقتی ملازمت کرنے والی بیوی، ماں، بہن، بیٹی یا بہو نظر آئیں گی۔ کھانا پکانے، صفائی ستھرائی سے لے کر بیماروں کی تیمارداری اور خاندان میں غمی خوشی کے تمام رسم و رواج نبھاتی ہوئی نظر آئیں گی۔ یہاں اس بات کو مدنظر رکھیں کہ دیہات کی ’ہاؤس وائف‘ کی ذمہ داریوں میں مال مویشیوں کی دیکھ بھال، کھیتوں کے کام میں مدد کے علاوہ ایندھن اور پانی کا بندوبست بھی شامل ہوتا ہے۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اگر آپ ان خواتین سے بھی پوچھ لیں کہ آپ کیا کرتی ہیں تو وہ بھی یہی جواب دیں گی۔ اس کی وجہ یہ پورا مائنڈ سیٹ ہے جو عرصہ دراز سے ہمارے اردگرد پایا جاتا ہے۔ اگر آپ گھر سے باہر جا کر نوکری کرتیں ہیں اور آپ کو تنخواہ ملتی ہے تو یہ ایک باقاعدہ کام (جاب) ہے جس کی گھر میں بھی بہت عزت ہے اور گھر سے باہر تو سارا لین دین ہی آپ کے معاشی حیثیت کی مرہون منت ہے۔ لیکن دوسری طرف ’ہاؤس وائف‘ کی جاب میں تنخواہ اور عزت نہیں ملتی۔ اس جاب کی جاب ڈسکرپشن تحریری طور پر نہیں ہوتی لیکن ہر عورت کو اس جاب کے سارے کردار اور ذمہ داریاں بخوبی یاد ہوتی ہیں۔ ان ذمہ داریوں کویہ ’ہاؤس وائف‘ پورے تن، من اور دھن سے پورا کرتی ہیں۔ گھر میں ان ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے سرانجام دینے والی خواتین کو وہ عزت اور رتبہ تک نہیں ملتا جو ایک بامعاوضہ ملازمت کرنے والے فرد کو ملتا ہے۔ اگر انہی گھریلوں کاموں کے لیے آپ کو باہر سے کسی مددگار کو بھرتی کرنا پڑے تو اسے نہ صرف منہ مانگی اجرت ملتی ہے بلکہ اس کے اضافی ناز نخرے بھی اٹھانے پڑتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ایک خاتون کی شادی کا مطلب ایک مرد سے نہیں بلکہ ایک پورے خاندان سے شادی ہونا سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں شادی کے بعد ہر بیوی کا فرض ہے کہ وہ خلوص اور محبت سے اپنے فرائض کی ادائیگی کرے۔ اس میں کوتاہی اچھی بات تصور نہیں کی جاتی لہذا اس کی مار پیٹ ایک جائز حق سمجھا جاتا ہے۔ مسئلہ ’ہاؤس وائف‘ میں نہیں مسئلہ اس سوچ کا ہے کہ ایک ’ہاؤس وائف‘ جو 24 میں 16 سے 18 گھنٹے کام کرتی ہے، وہاں کوئی یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ میری بیوی کچھ نہیں کرتی۔ اگر اس ’ہاؤس وائف‘ کے کام کی اجرت کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ کم از کم چالیس سے پچاس ہزار روپے ماہوار سے کم میں ہرگز پورا نہیں ہوگا۔
اس ملک کی آدھی آبادی جو خواتین پر مشتمل ہے اس کے بہت سارے مسائل ہیں۔ ان میں ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم نے انفرادی اور اجتماعی طور پر آج تک ان کے کردار اور ذمہ داریوں کو سراہا ہی نہیں ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے کیونکہ یہ رویہ گھر سے شروع ہوتا ہوا پورے معاشرے میں پھیلا ہوا ہے۔ اس معاشرے میں ’ہاؤس وائف‘ کی جہاں عزت اور اعتراف نہیں پایا جاتا وہاں کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین اور دوسروں کے گھروں میں ملازمت کرنے والی خواتین کے کام آج تک بلامعاوضہ مزدورں کے کیٹیگری میں شمار ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ بامعاوضہ کام کرنے والوں کے اعدادوشمار میں شامل ہی نہیں۔ جو کہ سراسر زیادتی ہے۔ اس کا نقصان ان خواتین کو اس صورت میں اٹھانا پڑتا ہے کہ ان کی ضروریات کے مطابق پالیسیاں بنتی ہی نہیں ہیں۔
اسی لیے بھارت سے تعلق رکھنے والی مشہور و معروف سماجی کارکن کملہ باسین کا جوکہ خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم عمل رہتی ہیں کہنا ہے کہ تاریح کا سب سے بڑا جھوٹ تو تب سامنے آئے گا جب بلامعاوضہ مزدورں کا کام ریکارڈ پر لایا جائے گا، جس میں سے اکثریت خواتین کی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق 85 فیصد گھریلو کام اور دیکھ بھال خواتین اور بچیاں کرتیں ہیں۔ اکثر خواتین اپنی تعلیم، روزگار اور کیرئر میں اس لیے آگے بڑھ نہیں پاتیں ہیں کہ وہ ان گھریلو ذمہ داریوں کو ترجیح دیتی ہیں۔
آج وقت آگیا ہے کہ ہم سب اپنی سوچ بدلیں اور اس سوال کا جواب بھی بدلیں اور جواب میں کہیں کہ جی میری بیوی ’ہاؤس وائف‘ ہے اور روزانہ 16 سے 18 گھنٹے کام کرتی ہے۔ جب گھر گھر عورت کی عزت اور احترام ہوگا وہاں کا ہر فرد عورت کا نہ صرف احترام سیکھے گا بلکہ ان کی زندگیوں میں عورت کی موجودگی کی اہمیت کے معترف بھی ہوں گے۔ اور یہی رویہ آگے چل کر بہت جلد پورے معاشرے کی سوچ بدل دے گا۔ ان کھیتوں اور دوسروں کے گھروں میں ملازمت کرنے والی خواتین کو بہت جلد بامعاوضہ مزدور تصور کرکے ان کے لیے ایسی پالیسیاں بنائی جائیں گی جو ان کے کام میں آسانیاں پیدا کریں گی۔