ہاں دنیا بھر کو گذشتہ برس سے کرونا (کورونا) نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ لوگوں کو آئے روز بظاہر نہ ختم ہونے والے چیلنجز کا سامنا ہے وہیں بڑھتی ہوئی سماجی اور صنفی نابرابری کے رجحانات میں اضافہ بھی کافی تشویش کا باعث ہے۔
راولپنڈی میں خواتین کی بڑی تعداد حکومت کے احساس پروگرام کے تحت امداد کے لیے جمع ہے - اے ایف پی |
پوری دنیا میں خواتین پر تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوئٹرس نے چند ہفتے پہلے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں عوام اور سرکاری اداروں کو اس مسئلے پر توجہ دینے کی گزارش کی تھی۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان میں خواتین کے حقوق کی بحالی اور تحفظ کے لیے سرگرم ادارے بھی ان حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور ممکنہ اقدامات کر رہے ہیں۔ وزارت انسانی حقوق، یو این ویمن، اور خواتین کے قومی کمیشن نے گذشتہ ہفتے ’پاکستان میں کرونا کے صنفی اثرات اور مضمرات‘ پر ایک پالیسی پیپر شائع کیا ہے جس میں اس تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ خواتین اور دوسرے نظر انداز طبقوں کی زندگیوں اور معاشیات پر عالمی وبا کے اثرات تشویشناک ہوسکتے ہیں لہذا اداروں اور حکومتوں کو پیشگی اقدامات کرنے ہوں گے۔
اس پالیسی پیپر میں خواتین اور بچیوں کو تعلیم، صحت، روزگار، صنفی تشدد سے متعلق ممکنہ درپیش مسائل کا احاطہ کیا گیا اور خطرات کا ذکر کیا گیا۔ چند تجاویز بھی مرتب کی گئی ہیں جس پر عمل کرتے ہوئے خواتین اور بچیوں کا تحفظ یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
یہاں ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہ پالیسی پیپر اپنی جگہ ایک بہترین دستاویز ہے لیکن جب تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوگا، اس کی افادیت نہیں رہے گی۔ جب ہم عمل درآمد کی بات کرتے ہیں تو حکومتی اداروں میں سوشل ویلفیر اور ویمن رائٹس کا محکمہ وہ کلیدی ادارہ ہے جو کہ سماجی ٖفلاح و بہبود اور خواتین کے حقوق کا ذمہ دار ہے۔
لیکن بدقسمتی سے لاک ڈاؤن کے دوران اس اہم ادارے کو ضروری (ایزنشل) ادارہ قرار نہیں دیا گیا۔ اس وقت اس ادارے کے متحرک اور موثر کردار کی اشد ضرورت ہے کہ یہ نہ صرف آگے بڑھ کر خواتین کے بڑھتے ہوئے مسائل کے حل کے لیے اقدامات کرے بلکہ جو ادارے خواتین کے مسائل کے حل کے لیے مینڈیٹ رکھتے ہیں ان کی سمت متعن کرے، ان کی رہنمائی کرے کہ کس جگہ، کس قسم کی مدد کی ضرورت ہے۔
اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ گھریلو جسمانی تشدد اور دیگر مسائل سے تحفظ کے لیے موجودہ اداروں اور ان کی سہولیات کے حوالے سے معلومات کو حد درجہ عام کیا جائے۔ اس ضمن میں ٹی وی، ریڈیو اور سوشل میڈیا کے ہر ممکنہ پلیٹ فارم کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس سے خواتین کو رہنمائی اور مدد حاصل کرنے میں معاونت حاصل ہوگی۔
ہم سب کے علم میں ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر خواتین غیررسمی اور کم معاوضے والے روزگاروں سے وابستہ ہیں۔ وہ کم آمدنی والے طبقے میں شمار ہوتی ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان خواتین کا سماجی تحفظ اور امداد دینے والے مراکز تک رسائی تقریباََ ختم ہوگئی ہے لہذا یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ امداد دینے والے لوگ اور ادارے ان خواتین تک رسائی ممکن بنائیں اور ان کی مالی اعانت کریں۔
پاکستان میں لاک ڈاون کو تقریباََ ایک مہینہ ہونے کو ہے۔ لوگ گھروں میں محصور ہوگئے ہیں۔ بہت سارے لوگ دفتر کا کام گھر سے کر رہیں ہیں۔ یہاں پر بھی بیشتر اوقات خواتین کے لیے حالات نسبتاََ زیادہ دشوار ہیں کیونکہ خواتین کو نہ صرف اپنے دفتر کے معاملات گھر سے بیٹھ کر آن لائن نبھانے ہوتے ہیں بلکہ گھریلو ذمہ داریاں بھی نبھانی پڑتی ہیں۔ ان دوہری ذمہ داریوں کی وجہ سے خواتین کی ذہنی اور جسمانی صورت حال پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ایسی خواتین یہ مسائل مختلف پلیٹ فارمز پر اٹھا رہی ہیں تاکہ وہ ان کے حل کے بارے میں جان سکیں۔ لیکن اس حوالے سے ایسے آن لائن سہولتوں کی اب بھی بہت کمی ہے جو کہ اس مشکل حالات میں خواتین کو مفت اور بروقت معلومات دے سکیں۔ متعلقہ اداروں کو اس صورت حال میں آن لائن کونسلنگ کی سہولیات مہیا کرنے کے لیے جلد اقدامات کرنے چاہیے۔
تاہم اس سلسلے میں خاندان کے مرد افراد پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ گھریلو امور میں خواتین کا ہاتھ بٹائیں۔ گھر کے مرد بڑھ کر گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹانے کے علاوہ ان کو عزت و احترام دیں گے تو گھر میں موجود بچوں کی ذہن میں پدر شاہی رویے پنپنے کی بجائے ختم ہوجائیں گے۔ صنفی تفریق کی بنیاد، انفرادی رویوں سے لے کر گھر کی سطح پر اور پھر گھر سے معاشرے کی سطح پر فروغ پاتے ہیں۔
کرونا کی عالمی وبا کے نتیجے میں ہمیں ایک موقع ملا ہے کہ ہم زندگی کی دوڑ میں تھوڑا توقف کر لیں اور اپنے انفرادی اور اجتماعی معاملات کو ازسر نو ترتیب دینے کی ایک کوشش کریں۔ اس دوران ہر اس رویے اور اقدام کو درست کرنے کی کوشش کریں جس سے کسی بھی انسان کو اس کے جنس، عقیدے، سوچ کی بنیاد پر تفریق یا نفرت انگیز عمل سے گزرنا پڑے۔
آج کی اس مشکل صورت حال میں پاکستان کی ہر عورت مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور اپنا کردار نبھا رہی ہے۔ ایسے میں ہر عورت کا حق ہے کہ وہ برابری کے بنیاد پر ترقی اور سہولیات سے استفادہ حاصل کرے اور ایک بھر پور زندگی گزارے۔