پچھلے کئی مہینوں سے دنیا میں زندگی کے تقریباً تمام تر معمولات بندش کا شکار ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگوں کو بہت سارے مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے لیکن دوسری طرف ماہرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کرونا (کورونا) وائرس کی وجہ سے کیے گئے لاک ڈاؤن کے اچھے اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ماحولیاتی آلودگی میں مسلسل کمی آرہی ہے جبکہ مجموعی طور پر انسانوں کے مابین تنازعات اور تشدد میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ایسے اثرات کے بارے میں جان کر خوشی ہوتی ہے
کیونکہ یہ ہم سب انسانوں کے لیے مفید ہیں۔
مارچ 2014 کو لی گئی اس تصویر میں اسلام آباد میں انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم کارکن غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اے ایف پی |
تاہم زمینی حقائق کے مطابق خواتین کے خلاف جرائم اور تشدد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے بلکہ اس حوالے سے صورت حال مزید تشویش ناک ہو رہی ہے۔ گذشتہ ایک مہینے میں سوات میں چھ خواتین کو اپنے ہی گھر کے افراد نے غیرت کے نام پر یا گھریلو ناچاقیوں کی بنا پر قتل کیا ہے۔ یہ چھ کیسز مختلف مقامی اور قومی اخبارات میں رپورٹ ہوچکے ہیں لیکن اس حوالے سے متعلقہ اداروں کی طرف سے کوئی تسلی بخش اقدامات نہیں اٹھائے گئے تاکہ نہ صرف ان بے گناہ خواتین کو انصاف مل سکے بلکہ آئندہ کے لیے بھی اس طرح کے جرائم کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔
سوات، بریکوٹ کی پولیس کے مطابق 12 مارچ کو ایک مقامی شخص نے گاؤں ناوگے میں اپنی بیوی کو قتل کیا مگر تھانے میں مقدمہ درج کروایا کہ اس کی بیوی پر نامعلوم افراد نے حملہ کرکے اسے قتل کردیا۔ بریکوٹ تحصیل تھانے کے ڈی ایس پی نے کیس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم نے مقتولہ کے شوہر کی رپورٹ پر اندھا یقین کرنے کی بجائے اپنی انکوائری کی، جس کے دوران ہمیں پتہ چلا کہ مقتولہ کے تین بیٹے اور شوہر مبینہ طور پر خاتون کے قتل میں ملوث پائے گئے ہیں، جس کے بعد گرفتاری عمل میں لائی گئی۔
اسی طرح 4 اپریل کو سوات میں کوکارئی تھانے کی پولیس کے مطابق زبانی تلخ کلامی پر انور شاہد نامی شخص نے اپنی بیوی کو گولی مار کر قتل کردیا۔ پولیس نے رپورٹ درج کرنے کے بعد ملزم کی تلاش شروع کردی اور 9 اپریل کو اسے گرفتار کرلیا۔
17 اپریل کو سوات کے ایک اور گاؤں چارباغ میں شاکر نامی شخص نے اپنی طلاق یافتہ بیوی کو قتل کردیا کیونکہ مقتولہ دوسری شادی کرنا چاہتی تھیں۔ چارباغ پولیس تھانے کے ایس ایچ او کے مطابق رپورٹ درج کرنے کے بعد ملزم کی تلاش جاری ہے۔
21اپریل کو سوات بریکوٹ کے علاقے شموزئی میں سلیمان نامی شخص نے اپنی بیوی اور سالی کو مبینہ طور پر قتل کردیا، جس پر پولیس نے رپورٹ درج کرکے ملزم کی تلاش شروع کر دی ہے۔
22 اپریل کو سوات بریکوٹ کے علاقے دم پررائے میں بخت تاج نامی شخص نے گھریلو مسائل کی بنیاد پر اپنی بیوی کو قتل کردیا۔ پولیس نے اس کیس کی رپورٹ بھی درج کرلی ہے۔
جن چھ مبینہ قتل کے واقعات کے بارے میں یہاں ذکر کیا گیا ہے، یہ وہ کیسز ہیں جو پولیس میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں خواتین سے متلقہ معاملات کو تھانے اور عدالت میں لے جانے سے خصوصی طور پر گریز کیا جاتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ معاملہ یا تو گھر کے اندر ہی نمٹا دیا جائے یا پھر مقامی جرگے کے ذریعے سے معافی تلافی کر کے بات ختم کر دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کے خلاف جرائم میں کمی کی بجائے روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور اکثر اوقات لاتعداد کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
ہمارے ہاں ایک اور بنیادی مسئلہ ٹھوس اعداد و شمار کی کمی کا بھی ہے۔ خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم میں خصوصی طور پر غیرت کے نام پر قتل اور گھریلو تشدد جیسے جرائم کے ٹھوس اور مکمل اعداد وشمار موجود ہی نہیں اور جو اعداد وشمار موجود ہیں وہ صرف ان کیسز کے ہیں جو پولیس میں رپورٹ ہوتے ہیں، جو کہ اصل تعداد سے بہت کم ہے۔
یہاں پر ضرورت اس امر کی ہے کہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی وزارت اور ادارے ان اعداد و شمار کو نہ صرف ڈاکیومنٹ کریں بلکہ ان اعداد وشمار اور حقائق کو رائے عامہ میں شعور و آگہی کے لیے بھی استعمال کریں۔ چونکہ اصل تعداد لوگوں کے سامنے ایک ٹھوس شکل میں سامنے نہیں آتی، لہذا ہمارے ہاں لوگ یہ رائے ہی مکمل طور پر رد کرتے آئے ہیں کہ ہمارے ہاں قابل تشویش حد تک خواتین کے خلاف جرائم نہ صرف موجود ہیں بلکہ اس میں آئے روز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
سوشل میڈیا کی وجہ سے اب کم سے کم یہ فرق ضرور آیا ہے کہ خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم پر لوگوں میں بحث مباحثے ہوتے رہتے ہیں اور بہت سارے کیسز منظر عام پر بھیآاجاتے میں، جس کے نتیجے میں مجموعی طور پر خواتین کو اب تھوڑا بہت حوصلہ ملنے لگا ہے اور وہ اپنے حق کے لیےآواز اٹھانے کی ہمت کر رہی ہیں، لیکن جو خواتین اپنے حق کے لیےآواز اٹھاتی ہیں ان کو آج بھی وہ سپورٹ اور رہنمائی نہیں مل رہی جو ان کو ملنی چاہیے، اسی لیے بہت کم خواتین کو انصاف ملتا ہے۔
خواتین کو بروقت مدد اس لیے نہیں مل رہی کہ ہمارے ہاں متعلقہ اداروں کی جانب سے ٹھوس اقدامات کی اب بھی بہت کمی ہے۔ شارٹ ٹرم مداخلت سے خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم اور خصوصی طور پر غیرت کے نام پر قتل جیسے جرائم کا خاتمہ ممکن نہیں ہے، لہذا اس سلسلے میں ٹھوس، بروقت اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے ۔
اکثریتی لوگ اور خصوصاً خواتین کو غیرت کے نام پر قتل جیسے جرائم سے متعلقہ قوانین کے بارے میں بھی آگہی نہیں ہے اور اگر تھوڑی بہت آگہی ہو بھی جاتی ہے تو ان کے آس پاس کے علاقوں میں متعلقہ اداروں کی کمی ایک اور سوالیہ نشان ہے، کیونکہ بہت سارے ادارے صوبائی یا قومی دارالخلافوں میں دفاتر کھولے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے دوردراز اور دیہی علاقوں کی خواتین ان اداروں کی سہولیات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتیں۔
بسا اوقات اگر کوئی خاتون انصاف اور مدد کے لیے ان اداروں تک رسائی کی کوشش کر بھی لیتی ہے تو ایسے میں ان خواتین کی معاشی طور پر غیر مستحکم صورت حال ان کو اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ ان اداروں تک رسائی حاصل کرسکیں، کیونکہ یہ خواتین سفری و دیگر ضروری اخراجات برداشت کرنے کی استطاعت نہیں رکھتیں۔
ہمارے ہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ اکثریتی خواتین معاشی طور پر گھر کے افراد خصوصاً مردوں پر انحصار کرتی ہیں۔ جہاں ہر فیصلہ مرد کی مرضی پر ہوتا ہے۔ وہ چاہے تو مدد کرے اور نہ چاہے تو نہ کرے۔ قانونی حقوق تک رسائی کے حوالے سے اکثر اوقات یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ خواتین کو گھر سے بہت کم ہی سپورٹ ملتی ہے۔ ایسے میں خواتین کے کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے مالی معاونت کون کرے گا ؟ تاکہ وہ بروقت قانونی مدد حاصل کرسکے اور انصاف تک رسائی حاصل کرسکے۔
پاکستان میں گذشتہ کئی سالوں سے خواتین کے خلاف جرائم کے خاتمے اور ان کے تحفظ کو ممکن بنانے کے لیے بہت سارے قوانین بنائے گئے ہیں لیکن آج تک کبھی کسی ادارے نے اس بات کا اندازہ لگانے کی کوشش نہیں کی کہ ان قوانین پر کس حد تک عمل درآمد کیا جاتا ہے اور اگر نہیں کیا جاتا تو ایسی کون سی مشکلات اور رکاوٹیں ہیں جس کے حل کے لیے باقاعدہ اقدامات کرنے کی ضروریات کا اندازہ لگایا جائے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے ملک میں انسانی حقوق کی وزارت اور اداروں کو مل کر موجودہ قوانین کا جائزہ لینا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ ان تمام قوانین کے ہونے کے باوجود اگر انسانی حقوق کی پامالی آئے روز بڑھ رہی ہے تو آخر اس کی وجہ کیا ہے اور اس سلسلے میں کن کن اقدامات کی ضرورت ہے۔ جب تک ان وجوہات کا ادراک کرکے ان کا سدباب نہیں کیا جائے گا۔انسانی حقوق کی پامالی کو کبھی بھی نہیں روکا جاسکتا۔