عورت سماج کا یکساں فرد ہے، انہیں صنف کی بنیاد پہ بنیادی حقوق سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔ سالوں بعد جب دیر جیسے دورافتادہ علاقے میں تاریخ میں پہلی دفعہ، مقامی انتخابات کے نظام کی تحت عورتوں کو 33 فی صد نمائندگی کا حق ملا۔ خواتین کا حوصلہ بلند ہوا، اور یہ امید پیدا ہوئی کہ اب ایک عام عورت، جس کے پاس نہ کو ئی سرمایہ ہے اور نہ کوئی نامی گرامی سیاسی پس منظر، نہ صرف 33 فیصد مخصوص نشستوں پرانتخابات میں حصہ لے کر سیاسی میدان عمل میں اسکتی ہے بلکہ وہ تمام جنرل نشستوں میں سے کسی پربھی انتخابات لڑنے کابلا تفریق حق رکھتی ہے۔
خواتین یہ سوچ کر خوش تھیں، کہ آج تک ان کی شنوائی کرنے والا کوئی لیڈر نہیں تھا، اس لئے عورتیں تعلیم، روزگار، صحت، انصاف جیسے بنیادی حقوق سے تقریباً محروم ہی رہیں۔ لیکن اب خواتین براہ راست سیاست کے میدان میں قدم رکھ کر عورتوں کی حالت بہتر کرنے میں اپنا کردارد اس لئے موثر طریقے سے ادا کریں گی کہ دراصل عورت ہی عورت کے مسائل خوب سمجھتی ہے لہذاعورت کی نما ئندگی اب عورت کریگی۔ سیاست میں آ نے سے خواتین قانون سازی کے عمل میں حصہ لے سکے گی، اور بہت سارے غیر شرعی اورغیرانسانی قوانین کو قانون سازی کے ذریعے ہٹاینگے۔
مثال کے طور پر“سورہ“، (سورہ ایک مقامی رسم ہے جس میں عورت کودشمنیاں اور تنازعات ختم کرنے کے لئے معاوضے کی شکل میں دے دیا جاتا ہے )، غیرت کے نام پر قتل، جا ئیداد میں حصے سے محروم رکھنے جیسی مکروہ رسم ورواج کے خلاف اواز بھی اٹھا سکے گی، اوراس کے ساتھ ساتھ خواتین کی بینادی ضروریات اورحقوق کی فراہمی کے لئے عملی طور پر منصوبے بھی شروع کرسکیں گی۔
لیکن خواتین کے خواب تب چکنا چور ہوئے جب انتخابات میں کاغذات نامزدگی کے مرحلے کے شروع ہونے سے پہلے ہی تمام مذہبی اور ترقی پسند سیاسی جماعتیں یکجا ہو گئیں، اور دن دیہاڑے، مملکت ِخدادِ پاکستان کی ائین اور قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، ایک ساتھ ایک نعرہ لگایا کہ ہمارے زندہ ہوتے ہوئے دیر جیسے علاقے کے باپردہ اورباحیا نظام کو عورتوں کے سیاسی عمل میں شریک ہونے پر تارتار نہیں کیا جا سکتا۔
تمام مقامی سیاسی رہنما بشمول مذہبی اور لبرل نے کھلم کھلا اعلانات کیے، تحریری معاہدے کیے، اپنے جلسوں میں لوگوں کے ایمان کو للکارا اور کہا کہ خبردار، اپنے پشتون اوراسلامی قوانین کی حفاظت کریں اورعورتوں کو نہ ووٹ ڈالنے دیں اورنہ ہی انتخابات لڑنے دیں۔ ایسا لگتا تھا کہ عورت کا پردہ اورحیا ان تمام مذہبی اور لبرل سیاسی رہنماؤں کے لئے انتہائی اہم ہے۔
لیکن جناب عالی، ہم عورتوں کی عملی زندگیوں میں تو صورتحال اس سے یکسر مختلف ہے، اسی دیر میں جب عورتیں میلوں فاصلے پر سر پرگھر کی تمام ضروریات کے لئے پانی لاتی ہیں، جب گاؤں میں عورت مرد ڈاکٹر سے علاج کراتی ہے اور حتیٰ کہ پیدایشی عمل کے کیسسز کے لئے گاؤں کا مرد ڈسپنسر گھر آتا ہے تو کوئی بات نہیں، جب لڑکی میلوں پیدل سکول جاتی ہے کیونکہ یا تو والدین گاڑی کا خرچہ نہیں اٹھا سکتے یا عورتوں کے لئے مخصوص پبلک ٹرانسپورٹ موجود ہی نہیں جیسے کہ شہروں میں ہوتا ہے، اس دوران کسی مرد یا سیاسی رہنما کو نہ پردے کا خیال آتا ہے اور نہ حیا کا.
یہ سب کچھ اس لئے بیان کیا جارہا ہے، کہ یہ صرف دیر کی کہا نی نہیں ہے بلکہ ذرا ایمانداری سے آپ سب کام لیں، غیر جانبدار ہو کر اپنے ارد گرد نگاہ دوڑائیں تو آپ کو اس جیسی ہزاروں مثالیں نظر ائیں گی، عورت کے لئے پردے، حیا اور گھر کی چار دیواری کو مقدم بناتے ہوئے تعلیم اور روزگار سے لے کر سیاست میں شرکت تک کو بے پردگی، بے حیائی اور معاشرے کے اقدار کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔
بالکل صحیح ہے، ہم عورتوں کو بھی اپنی حیا، پردہ اور روایات اتنی ہی مقدم ہیں جتنی کہ ایک مرد کے لئے ہیں۔ لیکن ذرا ایک لمحے کو ٹھریے ہمارے لئے عورت ہو نے کے ناطے یہ زیادہ مقدم ہیں کیونکہ اس معاشرے میں جو مرد جنسی زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے، مجر م وہ نہیں بلکہ وہ عورت سمجھی جاتی ہے جس کے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی ہے۔ اس عورت کو نہ پھر جینے کا کوئی حق ہے، نہ شادی کا، نہ خاندان کا بلکہ وہ خاندان اور معاشرے کے منہ پرایک کالک سمجھی جاتی ہے۔
تو خواتین کو مردوں سے زیادہ اپنی حیا اور پردے کا خیال ہوتا ہے اور خواتین اس زیور کو متاعِ زندگی سمجھ کراس معاشرے کے بنائے گئے نظام میں زندگی بسر کرتی ہیں، حالانکہ اس نظام میں خواتین کی رائے یا سوچ، کوئی اہمیت رکھتی ہی نہیں۔ بہت ساری خواتین آپ مردوں کے بنائے ہوئے نظام میں اپنے پردے اور حیا کو متاعِ حیات سمجھتے ہوئے سارے سمجھوتے کیے ہوئے ہیں، ایک آدھ عورت کبھی کبھار آواز اٹھا لیتی ہے، کبھی کبھار اپنی عزت نفس کی سن کر، لیکن ہمیں اس کے بدلے خاندان اورمعاشرے کی مخالفت، بدکرداری، اوربے حیائی کی اسناد بھی وصول کرنی پڑتی ہیں۔
کچھ عورتیں اتنی دل برادشتہ ہیں کہ وہ فخر سے یہ اسناد لے لیتی ہیں اور عمر بھر کے لئے بدکردار اور بے حیا بن جاتی ہیں۔ لیکن مرد حضرات زیادہ فکر مند نہیں ہو، ایسی عورتیں ابھی بہت کم ہیں۔ زیادہ تر خواتین ابھی بھی خاموش ہیں اور باحیا اور باکردار معاشرے کے نظام کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے حصے کا کردار نبھا رہی ہیں۔ لیکن نہیں، پردے اورحیا کے اقدار پر مبنی یہ رسم و راج صرف اور صرف ایک ڈھونگ ہے۔
پردے اورحیا کا جنازہ تو روز نکلتا ہے اور کوئی اور نہیں، مرد ہی نکالتا ہے یہ جنازہ۔ ابھی پچھلے دنوں ڈی ائی خان میں ایک بالغ لڑکی کو بالکل ننگا کرکے پورے بازار میں سرعام گھمایا گیا، کیوں؟ کوئی کچھ کہتا ہے تو کوئی کچھ۔ اس لڑکی کا خیال دل میں آتے ہوئے، اس اذیت کو ایک عورت ہونے کے ناطے محسوس کرتے ہوئے میرے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ بھا ڑ میں جائے ایسا سماج اور اس کے باشندے۔ کس حیا کا درس دیتے ہو، آپ عزت دار اور با حیا مرد؟ کوئی مائی کا لال ہے جو آگے بڑھ کراس بچی کے سر پر اب ہاتھ رکھ سکے، اسے عزت دے سکے؟
کیا مردوں کا جب دل چاہے گا عورت کو باکردارہونے کا تمغہ دیں گے، اور جب دل کرے گا اسے سرِ بازار ننگا کر کے اپنی غیرت، شان اورمردانہ پن کی داد وصول کریں گے؟ ایک لحظہ کے لئے مان لیتے ہیں، کہ قصاص اور دیت کا تقاضہ ہے آنکھ کے بدلے انکھ، خون کے بدلے خون۔ آپ مردوں کی عدالت میں ڈی ائی خان کی اس معصوم بچی کا مقدمہ ہے، کیا آپ سب ان مردوں کو ننگا کرکے اسی بازار میں گمھانے کے دعویدار نہیں بنیں گے؟ کچھ تو آپ لوگ بھی حیا کریں، شرم کریں، اپنے گریبان میں جھانکیں۔ ڈریں اس دن سے جب عورتیں یک زبان ہوکرکہیں گی کہ نہیں چاہیے آپ کا یہ نظام، جس میں عورت کو آج بھی ایک باندی ہی سمجھا جاتا ہے۔ صبر، برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ عورتیں جس دن یک آواز ہوکر، آپ کے سماجی رویے اور صنفی استحصالی نظام کے خلاف ”نا“ کہیں گی، شاید تب ہی تم مردوں کو عورتوں کی طاقت کا اندازہ ہو سکے گا۔
great
ReplyDelete